دورِ جدید ( ۱۸۵۷) کے بعد اقبال تک اردو غزل کے کردار نمائندہ غزل گو شعرا کی غزل کی روشنی میں
انورالحق

ABSTRACT
After the freedom war 1857 Urdu poetry came through a process of evolution till the age of Iqbal.very rapidly During this age tussle between old and new tradition of poetry took place in Urdu poetry. That was the reason that the mould of our poetry changed according to which the characters of Urdu Ghazal also changed. The meaningfulness and margin of the characters increased time by time with different poets of Ghazal. In this research article the characters of Urdu Ghazal after 1857 has been discussed in full detail .

           جنگِ آزادی(۱۸۵۷)   کے بعد انگریز ہندوستان پر قابض ہوگئے اور مغلیہ سلطنت مکمل طور پر زوال پذیر ہوگئی یہ زوال محض حکومتی و سیاسی زوال نہیں تھا بلکہ ایک مکمل تہذیبی، معاشی، معاشرتی ، سماجی اور مذہبی زوال کی صورت میں نمودار ہوا ۔ مغربی تہذیب و تمدن کی یلغار ، جاگیردارانہ اوردرباری نظام کے خاتمے اور سائنسی و مشینی دور کی آمد نے نہ صرف قدیم ہند اسلامی تہذیب کو دھچکا لگایابلکہ مذہبی اقدار تک کی چولیں ہلا کر رکھ دیں ۔ اسی تذبذب و پریشانی کے مراحل سے گزرتے ہوئے انسانوں کے فکر و نظر کے زاویے تبدیل ہوتے گئے زندگی کے پرانے مسائل سے لے کر سیاسی ، مذہبی، معاشی، تہذیبی و سماجی اقدار کی توڑ پھوڑ سے ادب کے موضوعات بھی تغیر و تبدل کا شکار ہوئے اور سب سے نمایاں تبدیلی غزل کی روایات مزاج اور موضوعات میں تبدیلی اور وسعت کا پیدا ہونا تھی جہاں پرغزل مو ضوعاتی اور فکری سطح پر کسی حد تک دو طرزوں میں بٹ گئی ۔
(۱)       طرزِجدید
(۲)       طرزِ قدیم
غزل کے طرز ِ جدید کے ابتدائی اثرات حالیؔ کے ہاں، بھرپور اثرات اکبرؔ الہٰ آبادی کے ہاں ، جب کہ اس کی تکمیلی صورت اقبال کے ہاں نظر آتی ہے یہاں یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ جدت کے شوخ رنگ غالبؔ کے ہاں بھی پائے جاتے ہیں مگر غالب ؔ کے ہاں جدت لاشعوری ہے ۔اورحالیؔ ، اکبر ؔ اور اقبالؔ کے فکر و فن میں جدت نمایاں طور پراجتہادی و اختیاری ہے ، جب کہ طرزِ قدیم کی پیروی امیر مینائی ؔ ، شادؔعظیم آبادی، جگر ؔمراد آبادی اور اصغرؔ گونڈوی کے ہاں بھر پور انداز میں پائی جاتی ہے البتہ اس دور کے سب سے بڑے استاد ، کلاسیکی غزل کی روایات کے سب سے بڑے امین اور نمائندہ غزل گو نواب مرزا خان داغ ؔ ہیں ۔نواب مرزا داغ ؔ نہ صرف قادرالکلام ، پختہ کار اور کہنہ مشق شاعر تھے بلکہ دیو پیکر زبان دان اور جگت استاد بھی تھے داغؔ کی غزل جہاں تک دوسرے عناصر و عوامل کے حوالے سے توانا و جان دار ہے ٹھیک اسی طرح ان کی غزل کے کردار بھی زندگی کی حرارت سے بھر پور نظرآتے ہیں ۔وہ ہر جگہ محبوب کے لئے صیغۂ تذکیر ہی لاتے ہیں مگر ان کی غزل کا محبوب واضح طور پر نسائی پیکروں میں سامنے آتا ہے لیکن ہر جگہ وہ محبوب پر حاوی نظر آتے ہیں کیوں کہ بقول ڈاکٹر سید عبداللہ :داغؔ معشوق کی نفسیات کے اچھے مصَّورہیں(۱)
دمِ رخصت یہ چھیڑ تو دیکھو
مجھ سے کہتے ہیں کب ملیں گے آپ (۲)
داغؔ معاملات ِ عشق و عاشقی ، وارداتِ ہائے وصل ووصال، بیانات ہائے جذبات و احساسات کو جس شوخی ، چلبلاہٹ ، روانی ، صفائی ، شگفتگی اور تازگی کے ساتھ بیان کرتے ہیں وہ خاص انھی کاحصہ ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ کہ ان کے تجربات ِذاتی ، واردات ِحقیقی اور جذبات واحساسات اصلی تھے ان کے ہاں عاشق اور معشوق کے کرداروں میں غالبؔ سے بھی زیادہ شوخی و شرارت اور ذکاوت و ذہانت پائی جاتی ہے۔ بقول ڈاکٹر سیدعبداللہ
’’داغ کی شاعری کا عاشق بھی چلبلا ہے اور معشوق بھی چلبلا، دونوں طبیعت دار اور طرحدار  ہیں۔(۳)
چند مثالیں درج ذیل ہیں !
تم کو ہے وصلِ غیر سے انکار   
اور جو ہم نے آکے دیکھ لیا! (۴)
پہلے گالی دی سوال وصل پر
پھر ہوا ارشاد! کیوں کیسی کہی؟(۵)
داغ واقعات ِ معاملہ بندی ، جلی کٹی ، طعن و تشنیع ، رشک و بد گمانی ، چھیڑ چھاڑ وغیرہ کو رکاکت و ابتذال سے مکمل پاک کر کے اپنی غزل کا حصہ بناتے ہیں مزید برآں یہی خیالات دہلوی روزمرہ محاورہ کے ساتھ باندھ کے واردتِ عشق میں خاص ڈرامائی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں بقول سید عابد علی عابدؔ:۔
 ’’واقعات کا پھیلاؤ، ان کا چڑھاؤ کشمکش، نقطۂ عروج، مسئلے کا حل ، واقعات کا سمٹنا اور انجام سبھی کچھ داغؔ کے اشعار میں پایا جاتا ہے۔ (۶)
اور یہی عناصر ِ خاص داغ کی انفرادیت کا باعث بنتے ہیں ۔
شبِ وصل ضد میں بسر ہوگئی
نہیں کہتے کہتے سحر ہو گئی (۷)
اس کے علاوہ داغ ؔ کے ہاں مذہبی کردار، تلمیحاتی کردار ، میخانے کے کردار اور کلاسیکی غزل کے تمام کردار پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں۔ امیر ؔاحمد مینائی نے جس وقت آنکھیں کھولیں ، لکھنوی تہذیب وتمدن پورے شباب پر تھا اس لئے ابتدا میں دوسرے لکھنوی شعرا کی مانند ان کے کلام میں ناسخ ؔکے گہرے ا ثرات پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ حسنِ محبوبی سے زیادہ متعلقاتِ حسن اور بیانِ یار سے زیادہ لباسِ یار کے تذکروں پر زور دیتے رہے لیکن بعد میں ان کے کلام میں غیر معمولی نکھار ، وسعت، ہمہ رنگی اور تنوع پیدا ہوا۔
ترے جگنوکا اگر آنکھوں میں بندھتا ہے خیال 
کرمکِ شب تاب بن کر صاف اڑ جاتی ہے نیند (۸)
حشر پر قامتِ جاناں کا ہے جلوہ موقوف 
اس قیامت کو، قیامت پہ اٹھا رکھا ہے(۹)
اسی لئے تو ڈاکٹر ناشادؔ  ان کی عظمت کا اعتراف ان الفاظ میں کرتے ہیں :۔
 ’’موضوعات کی وسعت ، فکر کی متانت اورخیال کی بلند پروازی میں انھیں داغ ؔ پر فوقیت حاصل  ہے۔(۱۰)
جگر مراد آبادی کی غزل فارسی اور اردو غزل کی کلاسیکی روایات کا ایک انمول نگار خانہ ہے ان کے ہاں عشق کی اعلیٰ سطحیں پائی جاتی ہیں اسی لئے ان کے عاشق و معشوق دونوں کے کردار میں ایک خاص وقار ، تمکنت اور رکھ رکھاؤ پایا جاتا ہے اورکمال کی بات یہ ہے کہ اس وقار ، تمکنت اور رکھ رکھاؤ کے باوجود بھی ان کے ہاں پھیکا پن بالکل پیدا نہیں ہوتا بلکہ ان کی غزل پاکیزہ جذبوں اور حقیقی واردات سے انتہائی حد تک لبریز ہے، اسی لئے ان کی غزل کے کردار زندگی کی حرارت سے بھرپور نظر آتے ہیں ۔
یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر 
جیسے کوئی گناہ کئے جارہا ہوں میں(۱۱)
کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے ہم نہیں رہے(۱۲)
ان کے ہاں شوخی ، معاملہ بندی اور نفسیاتی کیفیات بھی ایک خاص رنگ میں دکھائی دیتے ہیں ۔
وہ کب کے آئے بھی اور گئے بھی
نظر میں اب تک سما رہے ہیں
یہ چل رہے ہیں وہ پھر رہے ہیں
یہ آرہے ہیں وہ جارہے ہیں(۱۳)
اس کے علاوہ ان کے ہاں ساقی ، گل چیں ، باغبان ، زاہد اور ناصح کے کرداروں کے علاو ہ تلمیحاتی کردار بھی ایک دل نشین انداز میں ملتے ہیں ۔
پینے کو تو سب ہی پیتے ہیں مے خانۂ فطرت میں لیکن
محرومِ نگاہِ ساقی ہے وہ رند جو درد آشام نہیں(۱۴)
قیس و فرہاد ہوں یا سرمد و منصور جگرؔ
ہم نے بے مایہ نہ دیکھا کسی دیوانے کو (۱۵)
صبرِ ایوبؑ کی تجھے سوگند   
بیٹھے ہیں دور پلا دے ساقی (۱۶)
آج کن آنکھوں سے ہم جورِ خزاں دیکھا کئے
سب چمن لٹتا رہا اور باغ باں دیکھا کئے (۱۷)
اصغر گونڈوی:
حسن و جمال پرستی اور قدرے نشاطیہ لہجے کی خوبصورت آمیزش سے اصغر اپنی غزل کا آمیزہ تیار کرتے رہے لیکن وہ اپنی غزل میں وہ بھرپور اور توانا جذبے پیش نہ کر سکے جو غزل کا حق ہے ۔ان کی غزل پر تصوف کے بادل بھی منڈلاتے ہیں لیکن وہ بھرپورصوفیانہ غزل بھی نہ کہہ سکے ۔البتہ معاملاتِ عشق میں ان کا جو مجموعی تاثر بنتا ہے وہ نہ صرف انوکھا ہے بلکہ حیران کن بھی ہے اور یوں ان کا عاشق محبوب کی جفا کاریوں یا ستم کوشیوں پر ازحد آزردہ یا سراپا ماتم ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی مہربانیوں اور کرم نوازیوں سے ان کے من میں لڈو پھوٹتے ہیں۔ تبھی ان کے ہاں نہ صرف قاتل، عدو، غیر، رقیب وغیرہ کے کردار مدہم نظر آتے ہیں بلکہ ناصح ، واعظ ، زاہد اور قاصد کے کرداروں کا استعمال بھی کم نظر آتا ہے ۔
اصغر کی غزل گوئی میں محبوب کی وہ کارفرمائی نہیں ملے گی جو دوسرے غزل گویوں کے ہاں نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے خواجہ احمد فاروقی فرماتے ہیں ۔
 ’’عاشق اور محبوب کے تعلقات ِ جنسی کو بھی ان کا شعورِ لطیف اور رنگین نہیں بنا سکا۔(۱۸)
            البتہ متصوفانہ رنگ کی وجہ سے ان کے ہاں ساقی، محتسب، رند، پیرِ مغاں وغیرہ کے کردار پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہیں ۔
رقصِ مستی دیکھتے جوشِ تمنا دیکھتے
سامنے رکھ کر تجھے اپنا تماشا دیکھتے (۱۹)
رِند جو ظرف اٹھائیں وہی ساغر بن جائے
جس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی میخانہ ہے (۲۰)
سو بار ترا دامن ہاتھوں میں مرے آیا
جب آنکھ کھلی دیکھا اپنا ہی گریباں تھا (۲۱)
قطرئہ تنک مایہ ، بحرِ بے کراں ہے تو
اپنی ابتداء ہوکر اپنی انتہا ہو جا (۲۲)
مولانا الطاف حسین حالیؔ:
حالی کا فکر و فن اور ان کی شاعری اردو ادب کے افق پرنہ صرف جدید شاعری کاپہلا مطلع تھا بلکہ ان کی غزل ، جدید غزل کے درخشاں آفتاب کی پہلی کرن تھی۔حالی نے جدید غزل کے فنی ،فکری ، موضوعاتی، اسلوبیاتی اور لسانیاتی حوالوں سے غزل کی وسعت کے لئے شعوری طور پر جو اصلاحی کوششیں کیں ان کو بعض حضرات نے غزل دشمنی کا نام بھی دیا حالانکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو جدید غزل کی تمام تر وسعتیں اور کشادگیاں حالیؔ ہی کی اصلاحی کوششوں کی مرہونِ منت ہیں اسی لئے تو حالی نے غزل کی خراب حالت کو محسوس کیا کیوں کہ غزل ایک خاص ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے مبتذل ، مخربِ اخلاق اور اصلیت سے محروم ہوچکی تھی انھوں نے اس کو چھچھورے جذبات اور لا یعنی احساسات سے دور رکھنے کی طرف توجہ دی۔ اسی لئے حالی ؔ کی غزل ان کی ابتدائی دور کی غزل کے برخلاف ایک نیا رنگ ڈھنگ اور موضوعات لے کر میدانِ غزل میں اتری ۔
البتہ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم الثبوت ہے کہ وہ میرؔ و غالبؔ یا اکبرؔ و اقبالؔ جیسی غزل نہ کہہ سکے لیکن ان کی بالکل ابتدائی دور کی غزل نہ صرف میرؔو غالبؔکی غزل کی کلاسیکی روایات کی بھرپور امین ہے۔ بلکہ آخری دورٍکی غزل کسی حد تک فنی و موضوعاتی حوالے سے اکبرؔ و اقبالؔ کی غزل کے قصرہائے عظیم الشاں کی مضبوط بنیادوں کے لئے سنگ و خشت کا کام دے گئی ۔ یہ اور بات کہ وسیع سطحوں پر اکبرؔ و اقبالؔاور حالی ؔ کی غزل میں ایک واضح فکری بُعد پایا جاتا ہے البتہ حالیؔ غزل کے مخصوص مزاج اور ہر دلعزیزی سے بخوبی واقف تھے ۔ اس لئے انھوں نے ابتدائی دور میں غالبؔ کے بھرپور اثرات کے تحت غزل، غزل ہی کے مزاج میں کہی ۔چند مثالیں درج ذیل ہے!
نہ ملا کوئی غارتِ ایماں      
رہ گئی شرم پارسائی کی(۲۳)
ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور  
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں(۲۴)
لیکن اسے صرف غالبؔ کا اثر نہیں کہہ سکتے ، بلکہ حالیؔ خود بھی پوری طرح غزل کی روایت سے آشنا تھے اس لئے ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کلیاتِ نظم حالی میں لکھتے ہیںـ:۔
 ’’حالی ؔغزل کے مخصوص مزاج اور تغزل کی روایت سے پوری طرح آشنا تھے اس لئے انھوں نے اصلاح کا قدم اس قدر احتیاط کے ساتھ اٹھایا کہ غزل زندگی کے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ بھی ہوجائے اور اس کے مزاج کی بنیادی خصوصیات بھی برقرار رہیں۔(۲۵)
اور بِلا شبہ حالیؔ کی غزل جذبات ہائے عشق و عاشقی سے بھی مزین ہے اور واردات ہائے وصل وصال سے بھی مگر وہ خود بھی اعلیٰ جذبات و احساسات سے غزل کا تانا بانا تیار کرتے ہیں اوردوسروں کو بھی تلقین کرتے ہیں ۔بقول ڈاکٹر گوپی چند نارنگ:۔
’’حالیؔ کی اس تلقین نے اردو غزل کے احساسِ جمال کو پھر سے منزہ با سلیقہ اور معتدل روش پر لانے میں خاصا اثر کیا خود حالی ؔ کے ہاں آرائشِ خم و کاکل کے بیان میں جذبات کی جیسی شائستگی ، لہجہ کی نرمی اور بیان کی متانت ملتی ہے وہ قابلِ توجہ ہے۔ (۲۶)
عشق سنتے تھے جسے ہم وہ یہی ہے شاید
خو بخود دل میں ہے اک شخص سمایا جاتا (۲۷)

تم کو ہزار شرم سہی ، مجھ کو لاکھ ضبط
الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا (۲۸)
حالی کے ہاں عاشق و معشوق کے علاوہ رقیب ، ناصح ، نامہ بر، گل چین، صیاد، شیخ، واعظ، زاہد و غیرہ کے کرداروں کا بھی خوبصورت استعمال پایا جاتا ہے۔
جب کہ دنیا مل گئی عقبیٰ ہے پھر سہل الوصول
شیخ لگتے ہاتھ اس پر بھی تصرف کیجئے (۲۹)
تو بھی کھانے میں نہیں محتاط شیخ
ہم کریں پینے میں پھر کیوں احتیاط(۳۰)
حالیؔ کی آخری دور کی غزل میں بھی متعدد کردار نظر آتے ہیں لیکن جس طرح ان کی غزل کے دوسرے عناصر پھیکے ہیں اسی طرح ان کے کردار بھی مدہم نظر آتے ہیں چند مثا لیں پیشِ نظر ہوں!
چیونٹیوں میں اتحاد اور مکھیوں میں اتفاق
آدمی کا آدمی دشمن ، خدا کی شان ہے (۳۱)
اے غمِ دوست تجھی پر نہیں اپنی گزراں
کچھ فتوح اس کے سوا اور بھی بالائی ہیں (۳۲)
لیکن ان کی انوکھی خاصیت یہ ہے کہ انھوں نے غزل کے قدیم روایتی کرداروں کو کامیابی کے ساتھ نئے علامتی مفاہیم کے ساتھ غزل میں پیش کیا :۔
نصیحت بے اثر ہے گر نہ ہو درد
یہ گُر ناصح کو بتلانا پڑے گا (۳۳)
جو کریں گے بھریں گے خود واعظ
تم کو میری خطا سے کیا مطلب (۳۴)
شیخ اللہ رے تری عیاری
کس توجہ سے پڑھ رہا ہے نماز (۳۵)
اس کے علاوہ ان کی غزل میں دہلی کے معروف اساتذہ کا تذکرہ بھی موجود ہے ۔
غالبؔ و شیفتہؔ و میرؔ و آزردہؔ و ذوقؔ
پھر دکھائے گا یہ شکلیں نہ زمانہ ہرگز
داغؔ و مجروح ؔ کوسن لو کہ پھر اس گلشن میں
نہ سنے گا کوئی بلبل کا ترانہ ہرگز (۳۶)
یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اپنے دور میں حالیؔ کی غزل اور جدید رنگ ِ غزل کو خاص پذیرائی نہیں ملی اور یہ فطرت کے عین موافق تھا کیوں کہ بقول یوسف حسین خان:
 ’’مولانا حالیؔ کی نیک نیتی اور اخلاص پر شبہ نہیں لیکن اس ضمن میں اس کا مشورہ قابلِ قبول نہ تھا(۳۷)
مگر اس بات پر تمام اساتذئہ فن اور نقاد حضرات پوری طرح متفق اللسان ہیں کہ جدید غزل کی تعمیر و تشکیل میں ان کے تنقیدی خیالات صورِ اسرافیل کا درجہ رکھتے ہیں ۔
اکبرؔ الہٰ آبادی:
اکبر کی ذہنی بلوغت کے دور کی غزل ہر حوالے سے جدیدیت کی بہترین نمائندگی کرتی ہے اردو کے قد آور نقاد حسن عسکری ان  کے بارے میں فرماتے ہیں!
 ’’اکبر ؔ اردو کا جدید ترین شاعر ہے کیوں کہ اکبر نے جس قسم کی تکنیک استعمال کی ہے وہ تخلیقی اور شاعرانہ بنیادوں تک پہنچ جاتی ہے۔ ( ۳۸)
اکبرؔ نے غزل کی ایمائیت و اشاریت کو نئے شوخ رنگوں سے پوری طرح مزین کر کے غزل کی صدیوں پرانی روایات کو نہ صرف اپنے ہی دور بلکہ اگلے زمانوں کے ساتھ اذنِ ہم دوشی کا شرف بخشا اس لئے انھوں نے کلاسیکی روایتی کرداروں مثلاً قیس ، لیلیٰ ، شیریں فرہاد، شیخ ، صوفی ،مُلا، باغبان، پری، خضر ؑ ،محتسب ، رِند، برہمن وغیرہ کو نہ صرف نئے مفاہیم میں نہایت خوبصورتی اور کامیابی کے ساتھ پیش کیا بلکہ مغربی تہذیب پر شدیدتنقید، قومی تہذیب و معاشرت کی بھر پور عکاسی اورسیاسی موضوعات کو پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ غزل میں سمو کر بیسیوں نئے کردار بھی تراشے جن میں کلکٹر ، سقراط، بقراط، ارسطو، مِس ، ہندوستانی بابو ، چیلا ، پنڈت وغیرہ کثرت سے ملتے ہیں ۔ چند نئے اور کلاسیکی کرداروں کا استعمال ملاحظہ ہو!
حور مِس کو، مئے گلگوں کو پری کہتے ہیں
شیخ خوش ہوں کہ خفا ہم تو کھری کہتے ہیں (۳۹)
بابو کہنے لگے بجٹ پہ لڑو
ملک کو دیکھو اپنے حق میں لڑو (۴۰)
ہیں کلکٹر نزع میں عملے کھڑے ہیں دم بخود
جب خدا ہی ہو گیا حاضر تو ناظر کیا کریں (۴۱)
اس سے تو اس صدی میں نہیں ہم کو کچھ غرض
سقراط بولے کیا اور ارسطو نے کیا کیا (۴۲)
اکبرؔ کی اس کامیابی کے حوالے سے خواجہ محمد زکریا فرماتے ہیں :
’’ ایسے الفاظ جنھیں غزل گو تغزل کے منافی سمجھتے تھے بکثرت استعمال کئے ، نئی علامتیں وضع کیں،  نئے کردار تراشے۔(۴۳)
غزل کے حوالے سے اکبرؔ ، میرؔ ، غالبؔ یا اقبالؔ جتنا قد نہیں رکھتے لیکن تمام اہلِ نظر و اہلِ فن حضرات ان کے اس اجتہاد کے معترف نظر آتے ہیں بقول ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد:۔
 ’’مقلدین ‘‘ِ مغرب کی کج فہمی اور نادانی کو نشانۂ ملامت اور ہدفِ تنقید بنانے کے لئے انھوں نے کلو ، صلو، بدھو، جمن ، شیخ ، سید، اونٹ، گائے کلیسا، ٹٹو،مسجد، مندر، بت، برہمن، لالہ اور ان جیسی دوسری علامتوں اور استعاروں کو ہنر مندی سے برتا۔ ( ۴۴)
اور یہی اکبرؔ کی بیدارمغزی اور بیدار حواسی کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔ذیل کے شعروں میں اکبر کی جدت آفریں غزل کے کردار دیکھیں:
طالبِ دنیا کو اکبرؔ کس طرح سمجھوں میں خضرؑ
خود جو گم ہے فکر میں وہ رہنما کیوں کر ہوا ( ۴۵)
پروفیسروں سے ہمیں کچھ نہیں حاصل اکبرؔ
دلِ عاشق میں سماتی نہیں اسکول کی بات (۴۶)
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا (۴۷)
لہٰذا اکبرؔکی بھر پور اجتہادی و اختراعی شخصیت نے کلاسیکیت اور جدیدیت کے شوخ رنگوں سے جس غزل کا جو تانا بانا تیار کیا وہ واقعی قابل داد ہے اور مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ جدید شاعری اور خصوصاً غزل کے حوالے سے حالیؔ کی غزل صبح کاذب ، اکبر ؔ کی غزل صبحِ صادق اور اقبالؔ کی غزل نصف النہار کا درجہ رکھتی ہے۔
انورالحق، لیکچرارشعبہ اردو جامعہ پشاور

 

 

 

حوالہ جات
۱۔        سید عبداللہ ڈاکٹر ، سخن ور نئے پرانے حصہ اول لاہور ، مغربی پاکستان اکیڈمی  ۱۹۷۶،ص ۳۷
۲۔        سید عبداللہ ڈاکٹر ، سخن ور نئے پرانے حصہ اول لاہور ، مغربی پاکستان اکیڈمی  ۱۹۷۶،ص ۳۷
۳۔       ارشد محمود،ناشاد ، ڈاکٹر، اردو غزل کا تکنیکی ہئیتی اور عروضی سفر، مجلس ترقی ادب لاہور ، اشاعت اول ۲۰۰۸ء  ص، ۳۸
۴۔       یادگارِ داغ (مرتبہ کلب علی خان فائق) لاہور مجلس ترقی ادب ، ۱۹۸۴ ،ص، ۴۰۳
۵۔       یادگارِ داغ (مرتبہ کلب علی خان فائق) لاہور مجلس ترقی ادب ، ۱۹۸۴ ،ص،  ۴۰۵
۶۔        عابد علی عابد سید،مقا لاتِ عابد ، سنگ میل پبلیکشنز لاہور ، ۱۹۸۹ء، ص  ۱۹۵
۷۔       یادگارِ داغ (مرتبہ کلب علی خان فائق) لاہور مجلس ترقی ادب ، ۱۹۸۴ ،ص  ۳۰۷
۸۔       امیر مینائی، صنم خانہِ عشق، کراچی مسعود پبلشنگ ہاؤس ۱۹۶۴ء  ص، ۱۱۹
۹۔        امیر مینائی، صنم خانہِ عشق، کراچی مسعود پبلشنگ ہاؤس ۱۹۶۴ء، ص۲۱۴
۱۰۔       ارشد محمود،ناشاد ،ڈاکٹر، اردو غزل کا تکنیکی ہئیتی اور عروضی سفر، مجلس ترقی ادب لاہور ، اشاعت اول ۲۰۰۸ء، ص ۱۴۲
۱۱۔       جگر مراد آبادی، آتشِ گل۔لاہور ، مکتبہ اردو ادب ، جنوری ۱۹۷۸ء  ص ۱۳۹
۱۲۔       ایضاً،  ص ۴۲
۱۳۔      ایضاً،ص  ۱۲۵
۱۴۔      بحوالہ گوپی چند نازنگ، اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب، سنگ میل پبلیکشنز لاہور، ۲۰۰۵ء،  ص ۱۱۸
۱۵۔      ایضاً، ص۱۱۹
۱۶۔       ایضاً، ص۱۱۹
۱۷۔      ایضاً، ص۱۱۹
۱۸۔      اصغر گونڈوی ، کلیات اصغر ، لاہور مکتبہ شعرو ادب ۱۹۷۹ء،  ص ۷ ۳
۱۹۔       ایضاً، ص۲۶۷
۲۰۔      ایضاً، ص۵۴
۲۱۔       ایضاً، ص۶۵
۲۲۔      ایضاً، ص۶۳
۲۳۔      حالیؔ، خواجہ الطاف حسین ، کلیات حالی ،مرتب، رانا خضر سلطان، لاہور، بک ٹاک س ن، ص۷۰
۲۴۔      ایضاً،ص ۷۵
۲۵۔      افتخار احمد صدیقی، (دیباچہ) کلیاتِ نظم حالی لاہور مجلس ترقی ادب ، طبع اول جولائی ،۱۹۶۸ء ص ۷۳
۲۶۔      گوپی چند نازنگ، اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب، سنگ میل پبلیکشنز لاہور، ۲۰۰۵ء،  ص ۲۲۶
۲۷۔      حالیؔ، خواجہ الطاف حسین ، کلیات حالی ،مرتب، رانا خضر سلطان، لاہور، بک ٹاک س ن ، ص ۳ ۵
۲۸۔      ایضاً،ص  ۵ ۸
۲۹۔      ایضاً،ص ۳ ۲ ۱
۳۰۔      ایضاً،ص  ۲۵
۳۱۔      ایضاً،ص۱۳۲
۲۳۔      ایضاً،ص  ۲۷
۳۳۔      ایضاً،ص  ۳۹
۳۴۔      ایضاً،ص  ۹۷
۳۵۔      ایضاً،ص   ۱۱۳
۳۶۔      ایضاً،ص   ۱۱۳
۳۷۔       یو سف حسین خان ، ڈا کٹر ، اردو غزل ، لاہور آئینہ ادب، ۱۹۴۶ ص ۱۸۶۹
۳۸۔      محمد حسن عسکری، مجموعہ محمد  حسن عسکری ، لاہور سنگِ میل پبلی کیشنز ۲۰۰ء ص ۹۳۱      
۳۹۔      اکبر، الہ آبادی ، کلیات اکبر حصہ دوم ، کراچی ، (  المسلم پبلیشر) سن ندارد ص ۱۹
۴۰۔      ایضاً، ص ۸۵
۴۱۔      ایضاً،ص ۳۵
۴۲۔      ایضاً، ص ۲۰
۴۳۔      خواجہ محمد زکریا ، ڈاکٹر ، اکبرالہ آبادی کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ،لا ہور، سنگ میل پبلی کیشنز  ص ۲۹۳
۴۴۔      ارشد محمود ناشاد، داکٹر، غزل کا تکنیکی ہئیتی اور عروضی سفرص  ۱۵۶ ص ۳ ۹ ۲
۴۵۔      اکبر الہ آبادی کلیات اکبر حصہ دوم، کراچی المسلم پبلشرز ،  ص ۱۰
۴۶۔      ایضاً، ص ۲۶
۴۷۔     اکبر الہ آبادی کلیات اکبر حصہ دوم، کراچی المسلم پبلشرز  حصہ اول  ص ۳ ۸

 

 

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com